Welcome

Welcome to My Blog.Merry Christmas & Happy New Year 2024.Whatsapp +923468620023

Jesus only came for save Israel - کیا یسوع مسیح صرف اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھڑوں کے لیے آئے۔

کیا یسوع مسیح صرف اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھڑوں کے لیے آئے۔
ان بارہ کو یسوع نے بھیجا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہوتا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھڑوں کے پاس جانا۔ متی6۔5/10
اس نے جواب میں کہا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔متی 24/15
یسوع مسیح ساری دنیا کے لیے آئے۔
یسوع نے کہا' پس تم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور ان کو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ متی 19/28
یسوع نے کہا' کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔یوحنا 16/3
جواب:متی 24/15 کےحوالے کو اگر ہم 16/15 سے پڑھنا شروع کریں تو وہاں ایک غیر قوم کی عورت کا ذکر ہے اور یہ عورت اپنی بیٹی کی شفاء کے لیےیسوع مسیح کو پکار رہی ہے اور یہ یسوع مسیح کے لیے پہلا موقع ہے کہ وہ کسی غیر قوم میں کام کرےیا ان کی ضرورت کو پورا کرے اور یہاں یسوع مسیح بنیادی طور پر ایک معاشرتی بندھن کو توڑنے جارہا ہے اس لیے اس کام سے پہلے وہ اپنے شاگردوں اور لوگوں کو کچھ سکھانا چاہتا ہے 24 آیت میں اگر ہم دیکھیں تو شاگرد اس عورت سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں ان کے دل میں ترس نہیں ہے۔
اس عورت نے یسوع مسیح کو مخاطب کرنے کے لیے مشہور مذہبی اور سیاسی خطاب استعمال کیاہے کہ'' اے خداوند ابن داؤس مجھ پر رحم کر'' اور یسوع مسیح نے اسے جواب دیا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا یسوع مسیح نے ایسا کیوں کہاِ؟ کیونکہ اس عورت کا داؤس کے گھرانے سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ تھااور اس کو کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ ابن داؤد سے کسی قسم کا مطا لبہ کر ے یا اس سے کوئی توقع رکھے کیونکہ ابن داؤد کا انتظار تو یہودی کررہے تھے تاکہ ان کو روحانی اور جسمانی غلامی سے آزادی بخشے اور ان کا کھویا ہوا معیار اور وقار بحال کرے۔لیکن یہ تو غیرقوم عورت ہے اسے تو اس سےکوئی امید نہیں تھی اور اس معاشرتی بندھن کو توڑنے کے لیے یسوع مسیح نے یہ بات کہی تھی اور پھر کوئی مستقل بات بھی یہ ہوئی کہ یسوع مسیح صرف اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لیے  آے ہیں کیونکہ اگلے ہی لمحے یسوع مسیح نے اس کی ضرورت کو پورا کر دیا اور اس کی بیٹی کو شفاء دے دی۔
لوگ یہ سو چتے ہیں کہ یہ الفاظ یسوع مسیح کے غیرقوموں کے لیے نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ  زمینی زندگی میں لوگوں پر ترس کھاتارہا ہے لوقا 30/10 میں تو یسوع مسیح نے ایک غیرقوم سامری کو ہیرو کہا اور اس حوالے کا  End دیکھیں تو یسوع مسیح نے اس شرع کے  عالم کو زندگی حاصل کرنے کے لیے سامری کی پیروی کرنے کو کہا ہے۔
قابل غور بات اس عورت کا رویہ دیکھیں اس نے اسے خداوند اور ابن داؤس یعنی آنے والا مسیح کہہ کر مخاطب کیا ہے پھر یسوع مسیح کے سخت جواب کے ردعمل میں اسے پھر خداوند کہا اور سجدہ کیا پھر یسوع کے سخت جواب کے ردعمل میں پھرخدا اور آقا و مالک کہا۔اس عورت کو یسوع مسیح نے اس لیے کہا تھا کہ میں اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑ وں کے لیے آیا ہوں کیوں کہ اس عورت نے جو الفاظ استعمال کیے تھے وہ یہودی لو گوں کی امید کے الفاظ تھے یعنی'' ابن داؤد'' کیونکہ ابن داؤد کا انتظار تویہودیوں کو ہے کیوں کہ ابن داؤد نے تو داؤد کا تخت ان  کے لیے بحال کرنا تھا اس لیے یسوع مسیح نے اسے بتایا کہ غیر قوں کو ابن داؤد سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے اور اس کی ضرورت پوری کرکے اسے سمجھا دیا کہ میں سب انسانوں کے لیے آیا ہوں۔ اور جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے سب کچھ ہو سکتا ہے چاہے وہ یہودی ہو یا غیر یہودی۔ ان سب باتوں کا اثر 28 آیت میں بالکل واضح ہے کہ یسوع مسیح نے اس کے ایمان کی صفت کی ہے اور کہا اے عورت تیرا ایمان بڑا ہے اور عبرانیوں 11 باب میں ہابل ،حنوک،نوح،ابراہام وغیرہ کے ایمان کی صفت کی گئی ہے۔
اور عبرانیوں 6/11 میں ایک فارمولا بتادیا گیا کہ کیسے ہم خدا کو پسند آسکتے ہیں لکھاہے'' اور بغیر ایمان کے اس کو پسند آنا  نا ممکن ہے اس لیے کہ خدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہیے کہ وہ موجود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتاہے''
پیدائش /15 میں ہم دیکھتے ہیں کہ ابراہام ایمان ہی سے راست باز ٹھہرتا ہے'' اور وہ خداوند پر ایمان لایا اور اسے اس کے حق میں راست بازی  شمار کیا''
اور اس حوالے میں بھی یسوع مسیح یہی سیکھانا چاہیے کہ اگر کوئی غیرقوم بھی ہے اور اس کا ایمان بڑا ہے تو شفاء نجات پائے گا جیسے اس عورت سے کہا کہ جیسا تو چا ہتی ہے ویسا ہی تیرے لیے ہو۔حاصل کلام یہ ہے کہ جب تک یسوع مسیح زمینی زندگی یعنی جسم میں تھے تو وہ یہودیت کے پابند ےتھے صرف اور صرف موت نے انہیں اس قابل کیا کہ وہ اس بڑے مشن یعنی پوری دنیا کے لیے نجات کو پورا کر سکیں اسی لیے یسوع مسیح نے شاگردوں سے بھی 10 باب میں یہی کہا تھا کہ صرف اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا اور رومیوں 16/1 کے مطابق نجات اور خوشخبری کی پہلی دعوت یہودیوں کے لیے ہے'' کیونکہ میں انجیل سے شرماتا نہیں اس لیے کہ وہ ہر ایک ایمان لانےوالے کے واسطے پہلے یہودی پھر یونانی کے واسطے نجات کے لیے خدا کی قدرت ہے''
دوران تربیت انہیں غیراقوام کی طرف جانے سے روکا اور خوشخبری کو پھیلانے اور نجات کا کام ساری دنیا تک پہنچانے کے لیے بھی اعمال 8/1 میں تر تیب بتادی گئی ہے کہ'' لیکن لب روح القدس تم پر نازل ہو گا تو تم قوت پاوگے اور یروشیلم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میر ے گواہ ہو گے''
یروشیلم۔ یہودی علاقہ
یہودیہ۔ یہودی علاقہ
سامریہ یہودی اور غیرقوم سے مخلوط نسل
زمین کی انتہا۔ تمام غیرقومیں
اور متی 19/28 باب میں یسوع مسیح نے جو حکم  دیا ہے وہ موت پر فتح پانے اور کفارہ دنیے کے بعد کا حکم ہے کہ وہ منصوبہ جو ازل سے قوموں کے لیے تھا جس کا وعدہ ابراہام سے کیا گیا تھا کہ تیرے وسیلے سب قومیں برکت پائیں گی وہ یسوع مسیح وسیلہ پورا ہوا اور پھر شاگردوں سے حکماٌ  کہا گیا کہ سب قوموں کو شاگرد بناو۔

No comments:

Post a Comment